Saturday 13 April 2013

ساگر تیمی
مجھکو زندگی کی یہ آفتیں پسند آئیں 
یعنی ماہ پاروں کی الفتیں پسند آئیں 
زندگی غریبوں کی کلفتوں میں کھوئی ہے 
اور امیر لوگوں کو راحتیں پسند آئیں 
زندگی تو یوں میں نے کیا سےکیا گزاری ہے
تیرے ساتھ جو گزری ساعتیں پسند آئیں
اب کہ پھر نہیں ممکن عید میں نیا جوڑا
اپنے گھر سے غربت کی چاہتیں پسند آئیں 
گرتے گرتے آخر کار آ گئی ہے منزل تک
مجھ کو اس چیونٹی کی ہمتیں پسند آئیں
روز روز کا رونا عشق میں بھلا کیا دے
اس لیے پتنگوں کی جرائتيں پسند آئیں
علم ، شعر ، عشق ، حکمت ، دین اور شکیبائی
ساگر اس فقیری کی دولتیں پسند آئیں

No comments:

Post a Comment