Monday, 10 February 2025

نظرة عابرة على تاريخ أهل الحديث في الهند

 تاريخ فئة أهل الحديث في الهند حافل بالأعمال الإصلاحية البناءة و الريادة العلمية و المبادرات الطيبة التي لعبت دورا بارزا في إرجاع الأمة إلى الكتاب و السنة. إننا نجد من  العلماء و المحدثين في الهند في كل قرن من القرون منذ دخول المسلمين فيها من كانوا عاملين بالحديث و دعاة إلى العمل بالكتاب والسنة و العقيدة الصحيحة الإسلامية السلفية الخالية من البدع و الخرافات و الفلسفة الأجنبية اليونانية. اللهم إلا أن هذه الجهود ما كانت تشكل جهود جماعة و إنما كانت جهودا فردية شخصية لها آثارها ملموسة في دائرة معينة. 

و برزت شخصية الشاه ولي الله الدهلوي في القرن الثامن عشر الميلادي و غيرت من مسار المسلمين الديني و الفكري. فقد تمركزت أعماله في نشر الكتاب و السنة عن طريق ترجمة معاني القرآن الكريم إلى اللغة الفارسية و شرح الحديث النبوي باللغة العربية و الفارسية و إبراز جهود المحدثين و الدعوة إلى العمل بهما و بيان أسرار الشريعة الإسلامية. و الشخصية العظيمة التي كانت نقطة تحول في تاريخ المسلمين في الهند هي شخصية الشاه إسماعيل الدهلوي حفيد الشيخ ولي الله الدهلوي. عمل بالنصوص من كتاب الله و سنة رسوله و قام بالدعوة إليها و جاهد ضد البدع و الخرافات و بين العقيدة الصحيحة و قاد حركة الجهاد ضد الإنكليز و للدفاع عن المستضعفين من المسلمين. 

عرفت حركة السيد أحمد الشهيد و الشاه إسماعيل الشهيد بالحركة الوهابية و حركة شهيدين و كان أميرها السيد أحمد الشهيد و لكن الإمارة العلمية كانت بيد الشاه إسماعيل الشهيد. و لما قتلا في بالاكوت عام ١٨٣١م انتقلت الإمارة إلى أهل صادق فور في بتنا و كانوا أهل حديث ، استماتوا في سبيل إقامة النظام الإسلامي و تحرير البلاد. و لم يدخروا وسعا في نشر تعاليم الكتاب والسنة و إصلاح ما فسد من أمر الأمة. 

إنهم كانوا في الصف الأول في كل عمل اجتماعي ، قامت به الأمة لصالحها، لأنهم أحرزوا العلم و عملوا بما علموا و أخلصوا نياتهم ففاقوا أقرانهم. 

عرفت الهند في العالم الإسلامي لخدمة الحديث النبوي الشريف بالتدريس و التأليف و التحقيق بجهود النواب صديق حسن خان البوفالي الذي نشر كتب الحديث و وزعها مجانا و شرحها و نشرها و وظف علماء لخدمتها و بجهود السيد نذير حسين الدهلوي الذي كان آية من آيات الله فقد درس لأكثر من ستين سنة و خرج علماء كبارا انتشروا في مشارق الأرض و مغاربها و أحدثوا ثورة علمية و عملية ، خدموا الدين و المجتمع في مختلف المجالات. 

كانت ميولهم إلى خدمة الحديث قوية. قاموا بشرح سنن أبي داود و جامع الترمذي و مشكوة المصابيح و سنن النسائي و بترجمة كتب الحديث إلى اللغة الأردية و دافعوا عن المحدثين و لا سيما إمام الفقهاء و المحدثين محمد بن إسماعيل البخاري. و بذلوا كل غال و رخيص لنشر الدين في صورته النقية الصافية. 

و كانوا مع المسلمين في كل عمل بناء ، يشاركون معهم و يتكاتفون و يرشدونهم وقت الحاجة و الذين يعرفون تاريخ ندوة العلماء بلكناؤ و تاريخ جمعية علماء الهند و تاريخ الجهاد ضد الإنكليز يعرفون جيدا ما لهذه الفئة من دور بارز و ريادي في هذه الجهود كلها. 

إنهم كانوا مع قلة عددهم في الصفوف الأولى لأنهم عاشوا حياة علمية و عملية و جاهدوا في سبيل الله حق جهاده. فقاموا بإلقاء دروس الكتاب والسنة لأول مرة في ديار الهند و سافروا إلى المدن والقرى يدعون إلى الله و ينشرون العقيدة الصحيحة و يصلحون المسلمين ، يكتبون الكتب و ينشرونها و يكتبون على شؤون العامة بلسان العامة و يحدثون بذلك بيئة العمل بالكتاب والسنة. إنهم لأول مرة في الهند قاموا بعقد المؤتمرات والندوات العلمية للعلماء والدعاة و ابتكروا نظام المدارس الدينية الحديثة ، توجد فيها مكتبة و دار إقامة الطلبة، يعيشون فيها و يتدارسون و مدرسة أحمدية بمدينة آره معروفة لمبادراتها الطبية الجديدة النافعة قبل ندوة العلماء و غيرها من المدارس و الجامعات الدينية. 

إنهم بجهودهم الجبارة دفعوا الفئات الأخرى إلى أن يشتغلوا بالحديث و يتركوا الاكتفاء بكتب الفقه و يستدلوا بنصوص الكتاب والسنة كما اعترف به السيد سليمان الندوي و مناظر حسن كيلاني و غيرهما. 

ثناء الله صادق التيمي

Friday, 7 February 2025

 

مختصر راستے کی تلاش ہمیشہ عقل مندی نہیں ہوتی ۔ بڑی منزلوں کے راستے مختصر نہيں ہوتے ۔ آپ نے شاہراہوں کو مختصر نہیں دیکھا ہوگا ۔ لمبے راستوں کو طے کرنے سے ہی بڑے اہداف حاصل ہوتے ہیں ۔ مختصر راستے تلاش کرنے والے بالعموم گلیوں میں پھنس کر رہ جاتے ہیں ۔ ندا فاضلی کا معنی خيز شعر ہے ؛

سفر میں دھوپ تو ہوگی جو چل سکو تو چلو

سبھی ہیں بھیڑ میں تم بھی نکل سکو تو چلو

آپ جب اپنے ارد گرد نظر دوڑائيں گے تو آپ کو ایسی مثالیں آسانی سے مل جائیں گی جو بہت جلد بڑی منزل چاہتے تھے ، انہیں طول طویل راہ سے مسئلہ تھا، انہوں نے شارٹ کٹ اختیار کیا ، بیچ میں ہی راہ چھوڑ کر کوئی چھوٹی سڑک پکڑ لی کہ جلد پہنچ جائیں گے اور پھر وہ گم ہوگئے ۔ شاہراہ پر چلنے والے جب منزل تک پہنچے تو پتہ چلا کہ مختصر راستوں کے متلاشی رشک کرنے والوں کی صف میں کھڑے ہیں اور کف افسوس مل رہے ہيں ۔

یہ انجام تو تب ہے کہ آدمی بہر حال راہ مختصر بھی اختیار کرے تو درست ہی اختیار کرے ۔ اس سے بھیانک انجام تب رونما ہوتا ہے جب مختصر کے ساتھ آدمی غلط راہ بھی اختیار کرتا ہے ، امتحان میں چوری ، تجارت میں دھوکہ ، نوکری میں چاپلوسی اور فریب ان راستوں سے آگے بڑھنے کا خواب دیکھنے والوں کی اکثریت نہ صرف یہ کہ منزل نہیں پاتی رسوا بھی ہوتی ہے اور پریشان بھی ۔ اس کائنات کی ایک سنت ہے اور وہ معلوم سنت ہے ۔ اس کو سمجھنے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی بھی ضرورت نہيں ۔ پائیدار وہی ہوگا جو ایمانداری سے حاصل کیا گيا ہوگا، واقعی جس میں محنت لگی ہوگی اور جسے حاصل کرنے کے لیے فریب و دھوکہ دہی سے کام نہیں لیا گيا ہوگا۔

بہت سے لوگ دنیاوی ترقی کے لیے جھوٹ، فریب اور دھوکہ کو زینہ سمجھتے ہیں ۔ انہیں لگتا ہے کہ وہ انہی راستوں سے مقام بنا لیں گے اور وہ بھول جاتے ہیں کہ ایسا اصلا ہوتا نہیں ہے ۔ اس غلط راہ پر چلنا نسبتا آسان ہوتا ہے ، تبھی تو زيادہ تر لوگ چلنے بھی لگتے ہیں لیکن ذرا نظر دوڑا کر دیکھیے کہ کامیاب کتنے ہیں ؟ اگر کامیاب لوگ کم ہیں اور یقینا کم ہیں تو اس کا مطلب یہی ہے کہ کامیاب ہونے والوں کی اکثریت نے کامیابی کے اصول برتے ہیں ، اس کے آداب بجا لائے ہیں اور ان کی زندگيوں میں وہ محنت ، تگ ودو اور ایمانداری رہی ہے جن سے وہ مام حاصل ہوتا ہے ۔ میں نے اپنی مختصر سی زندگی میں ایسے دسیوں لوگ دیکھے ہیں جو سالوں سے مختلف غلط راستوں سے بڑا بننے کا خواب دیکھ رہے ہيں اور ان کے حصے میں کچھ نہیں آ رہا ، وہ کم نصیب اگر درست راہ پکڑ لیں تو آغاز سفر میں انہیں پریشانی تو ہوسکتی ہے لیکن ایک دن وہ اپنی منزل مراد کو ضرور پہنچ جائیں گے ۔

مختصر راستے کی تلاش بظاہر عقل مندی لگتی ہے ، اصلا یہ بے وقوفی ہے ۔ سمجھدار لوگ انجام پر نظر رکھتے ہیں ، راہ کی پریشانیوں اور آسانیوں سے ان کو اس لیے اتنا مطلب نہیں ہوتا کہ اعتبار راہ کی کٹھنائيوں یا سہولتوں کا نہیں ، نتائج کا ہی ہوتا ہے ۔ میں نے ایمانداری سے محنت کرنے والوں کو دو تین سال کی مدت میں اپنا مقام بناتے دیکھا ہے ، وہ چاہے دینی ادارے کے طلبہ ہوں یا تجارت سے جڑے افراد ۔ وہيں مختلف قسم کی جعل سازیوں میں پڑے لوگوں کو دیکھا ہے کہ وہ کل بھی بے حیثیت تھے اور آج تو اور بھی زیادہ بے وزن ہیں ۔

ثناء اللہ صادق تیمی