Wednesday, 1 January 2025

 بوڑھی آنکھوں کی فراست

ساگر تیمی
مجھے ایک گھنٹہ ہو گیا تھا آئے ہوئے ۔ حکیم صاحب کو میں نے پیشگی اطلاع دے دی تھی ۔ بازار کے ایک طرف ، شور و ہنگامہ سے دور ، ان کے بوسیدہ سے مطب کے سامنے ایک دو اور لوگ بھی تھے ، مطب کا پرانا ناہموار دروازہ ،تھا تو بند لیکن اتنا کھلا ہوا تھا کہ اندر موجود لوگوں کی جھلکیاں دکھائی پڑ جا رہی تھیں۔ لگ رہا تھا کہ کوئی جوڑا اندر ہے ۔ مجھے اب غصہ آنے لگا تھا ، وہ تو خیر کہیے کہ جو دو تین لوگ انتظار کر رہے تھے ان میں سے ایک کی گود میں ایک بڑا پیارا سا بچہ بھی تھا، وہ جتنا پیارا تھا ، اتنا ہی شوخ تھا، میری طرف دیکھ کر وہ اپنے چہرے کو ایسے بنا رہا تھا جیسے مجھے چڑھانے کی کوشش کررہا ہو اور مجھے اس کی یہ ادا بہت اچھی لگ رہی تھی ۔ میں نے بھی اسے منہ بنا بنا کر چڑھانا شروع کردیا تھا اور ہم دونوں کے بیچ مقابلہ آرائی ہونے لگی تھی ۔ منہ بنانے سے نکل کر اب وہ زبان چلانے پر آ گيا تھا اور میرے انہماک کا یہ عالم تھا کہ میں بھی بلی کی آواز نکالنے لگ گیا تھا۔ میری آواز نے ان تین لوگوں کو چونکا دیا تھا جو اب تک اپنی اپنی باری کے انتظار میں ہم دونوں کے کھیل سے مکمل غافل تھے ، اب جب آوازوں نے انہیں غفلت سے بیدار کیا تو انہیں اپنی ہنسی پر قابو پانے میں دیر لگی۔
میری بغل میں بیٹھا ہوا آدمی کچھ زیادہ ہی پریشان تھا ۔ معلوم ہوا کہ اس کی بیٹی کی شادی کو پانچ سال ہوگئے ہیں اور کوئی اولاد اب تک نہیں ہوئی ۔ بیٹی کو کہیں طلاق نہ ہوجائے ، اس لیے وہ زیادہ فکر مند تھا ۔ اسے کسی نے بتایا تھا کہ حکیم صاحب کے پاس بہت اچھا علاج ہے، کئی لوگوں کو شفا ملی ہے اور ان کی گود یہاں آنے سے بھر گئی ہے ۔ میں نے حکیم صاحب کی تعریف کی اور اسے دعائیں دیں کہ ان شاءاللہ تعالی وہ ضرور نانا بنے گا ۔ ابھی وہ اپنا اور بھی غم بانٹنا چاہتا تھا کہ حکیم صاحب کے مطب کا دروازہ کھلا ۔ جوان سال مرد و عورت نکلے اور حکیم صاحب نے مجھے اشارے سے اندر بلا لیا۔
اس سے پہلے کہ میں اپنی خفگی کا اظہار کرتا ، حکیم صاحب نے اپنے ہاتھوں کی بنائی ہوئی چائے پیش کی ، نگاہوں سے معذرت کی اور پھر نہ معلوم انہیں کیا سوجھی کہ مجھ سے کچھ پوچھے بغیر ہی گفتگو شروع کردی ۔حکیم صاحب وہی کوئی ساٹھ کے پیٹے میں رہے ہوں گے ۔ چہرے پر بھر کلا داڑھی تھی ، آنکھوں پر عینک جس سے ان کا چہرا خاصا سنجیدہ نظر آتا تھا، کرتا پاجامہ پر ایک بھورے رنگ کی صدری ، دھان پان سے آدمی ۔ سر پر ٹوپی اور پیشانی پر سجدے کا نشان ۔ گفتگو کرتے ہوئے کسی نکتے پر مسکراتے تو اچھے لگتے تھے ۔
ماسٹر صاحب ! کیا کہوں ؟ آپ کو انتظار کرنا پڑا لیکن مجھے آج ایسی خوشی ملی ہے کہ میں آپ کو بتائے بنا رہ بھی نہیں سکتا۔ یہ جو جوڑا گیا ہے ، اس کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے ؟ میں نے نوٹس کیا تھا کہ وہ ہنستے مسکراتے نکلے تھے ۔ میں نے کہا : حکیم صاحب ! وہ خوش وخرم تھے ۔ ماشاءاللہ ہنستے مسکراتے جا رہے تھے ۔ مجھے تو یہ حیرانی ہے کہ آپ ان کے ساتھ پچھلے دو گھنٹے سے اندر کیوں بند تھے ؟ حکیم صاحب کے چہرے پر مسکراہٹ مزید پھیل گئی اور آنکھوں کی چمک میں جیسے اور رونق سی بڑھ گئی ۔اس بار وہ تھوڑے اور اچھے لگے ۔
ماسٹر صاحب ! آج سے ایک سال قبل یہ دونوں میرے پاس آئے تھے ۔ دونوں ایک دوسرے سے پریشان تھے ، ایک دوسرے کی صورت نہیں دیکھنا چاہتے تھے ، دونوں کو باہم شکایتیں ہی شکایتیں تھیں ۔ ان کی شادی کو تین سال ہوگئے تھے لیکن ان کے بیچ کچھ بھی دلچسپ نہیں تھا۔ وہ کسی بھی طرح اس رشتے کے بندھن سے نکلنا چاہتے تھے ۔ دونوں کو لگتا تھا کہ وہ دونوں ایک دوسرے کے لیے نہیں بنے ہیں ۔ ان کے والدین کو میرے بارے میں پتہ تھا، انہوں نے مجھ سے گزارش کی تھی اور میں انہیں اس حیثیت سے دیکھ رہا تھا کہ کہیں کوئی طبی پریشانی تو نہیں ۔ وہ دونوں فٹ تھے ۔ میں نے جب انہیں ٹٹولا تو کھلا کہ اصلا ان دونوں نے ایک دوسرے کو سمجھنے کی سنجیدہ کوشش کی ہی نہیں ہے ۔
حکیم صاحب نے اپنی بات روک کر میری طرف دیکھا ۔ اپنے بقیہ مریضوں کو اندر بلایا ، دوائيں جاری رکھنے کو کہا اور پندرہ دن بعد پھر آنے کا کہہ کر میری طرف متوجہ ہوئے ۔ ماسٹر صاحب! آپ مصروف تو نہیں ہیں نا؟
میرا حال یہ تھا کہ میں ان کی کہانی میں کھویا ہوا تھا ، ویسے بھی آج کی میں نے چھٹی لی ہوئی تھی ، اس لیے میں نے انہیں بتلایا کہ میں مصروف نہیں ہوں ۔ انہوں نے ایک اور چائے میری طرف بڑھاتے ہوئے گفتگو آگے بڑھائی ۔ ماسٹر صاحب ! بات یہ تھی کہ لگ بھگ چھ مہینے تک وہ دونوں خوش وخرم تھے ، ان کے بیچ وہ سب کچھ تھا جو میاں بیوی کے بیچ ہونا چاہیے لیکن لگ بھگ شادی کے چھ مہینے بعد ان کے معاملات بگڑنے شروع ہوئے ۔ پہلے جیسا اکسائٹمنٹ نہیں رہا، ساری چيزيں سرد پڑتی گئیں ، لڑکا بھی جب کام میں مصروف ہوا تو اسے بس کام ہی کام سوجھنے لگا اور لڑکی جب توجہ سے محروم ہوئی تو چرچری ہوگئی ، بےچاری فون سے بھی کب تک دل بہلاتی ۔ رفتہ رفتہ صورت حال یہ پیدا ہوئی کہ دونوں ساتھ تو تھے لیکن جیسے ساتھ نہیں تھے ۔ ان کے درمیان محبت کا گلاب مرجھاتا چلا گيا ۔ توتو میں میں سے لڑائی جھگڑے تک کی نوبت آ گئی اور نتیجہ یہ نکلا کہ وہ تنگ آگر علاحدہ ہونے کا آپشن ڈھونڈنے لگے ۔ انہیں یہ لگ رہا تھا کہ علاحدگی ہی انہیں خوشی دے سکتی ہے ۔
میرا تجربہ بتلا رہا تھا کہ انہیں کوئی طبی مسئلہ نہیں ہے ۔ دونوں اپنی بھرپور جوانی میں تھے ، لڑکا اسمارٹ تھا اور لڑکی خوب صورت، وہ تو آپ نے دیکھا ہی ہے ۔ ان کے بیچ رشتہ مضبوط رہنا چاہیے تھا لیکن بات ایسی نہیں تھی ۔ میں نے دونوں کو کھل کر باتیں کرنے دیں ۔ وہ دیر تک ایک دوسرے کی خامیاں گناتے رہے ۔ میں نے اس بیچ انہیں لڑنے بھی دیا ، وہ باتوں باتوں میں کھل گئے تھے ۔ میرے لیے یہ ایک پریشان کن صورت حال تھی لیکن میں چاہتا تھا کہ دل کا غبار نکل جائے تو اچھا ہے ۔
میں نے حکیم صاحب کو ٹوکا : حکیم صاحب ! پھر کیا ہوا ؟ یہ کایہ پلٹ کیسے ہوئی ؟ آپ میرے صبر کا امتحان ہی لیں گے یا کچھ وضاحت بھی کریں گے ؟
حکیم صاحب مسکرائے اور بات جاری رکھی ۔۔۔۔ لڑکی نے مجھ سے کہا : انکل ، یہ اگر اس زمین کا آخری آدمی بھی ہوگا تو میں اس کے ساتھ رہنا نہیں چاہوں گی ۔ لڑکے نے جھٹ کہا : بول تو ایسے رہی ہے جیسے میں اس ڈائن کے ساتھ رہنے کو مرا جا رہا ہوں ۔ حکیم صاحب ! مجھے رات بھر نیند نہیں آتی ، دن بھر کام کرتا ہوں ، گھر آتا ہوں تو مزيد پریشان ہو جاتا ہوں ، اس کی زبان سے الفاظ نہیں زہر نکلتے ہیں ۔ یہ عورت بیوی بننے کے لائق ہی نہیں ۔ آپ کو اگر علاج کرنا ہی ہے تو خدارا ہماری طلاق کروا دیں ۔ ماسٹر صاحب ! طلاق کے نام سے لڑکی تھوڑی سی گھبرائی ضرور لیکن ایسا لگا کہ جیسے ایک کیفیت آئی اور گئی۔ اس نے جیسے خود کو سنبھالتے ہوئے کہا : انکل ، یہ نیک کام جلد کر دیں ۔ میں ایسے بھی اس آدمی کی صورت دیکھنا نہیں چاہتی ۔ یہ صرف چیخنا چلانا جانتا ہے ، اس کی ناک پرہمیشہ صرف غصہ رہتا ہے ، اسے معلوم بھی نہیں کہ پیار کسے کہتے ہیں ، محبت کس چڑیا کا نام ہے ؟ یہ ذلیل آدمی شوہر بننے کے لائق ہی نہیں ۔ میری قسمت پھوٹی تھی کہ مجھے اس کے کھونٹے سے باندھ دیا گيا ۔
ماسٹر صاحب ! میں ابھی یہ سوچ ہی رہا تھا کہ میں ان کا کیا کروں کہ میرے والد قبلہ آ گئے ۔ وہ اندر سے اس جوڑے کی بات سن رہے تھے ۔ انہوں نے مجھے اندر جانے کا کہا اور پھر خود بھی ان دونوں کے سر پر ہاتھ پھیر کر میرے پاس آ گئے اور کہا کہ تم اپنے مطب میں بیٹھنا لیکن ان کا علاج میں کروں گا۔ ان کا علاج طبی اصولوں سے نہيں دینی اصولوں سے ہوگا تبھی یہ دونوں ایک دوسرے کے لیے باعث سکون ہوں گے ۔ والد صاحب قبلہ خود بڑے حکیم تھے ، میں نے ان کا حکم مانا ۔ وہ اندر آئے ۔ مجھے اپنی جگہ بیٹھنے کا حکم دیا ۔ خود ان دونوں کے بیچ بیٹھ گئے ۔ دونوں کو غور سے دیکھا ، مسکرائے اور کہا : آپ دونوں دل کے اچھے ہیں ، اللہ نے اچھی شکلیں دی ہیں ، پڑھے لکھے بھی معلوم پڑتے ہیں ، لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آپ دونوں ایک دوسرے کے لیے نہیں بنے ہیں ۔ بچی تمہارا باپ میرا شاگرد ہے اور اس کے بچے کا دادا میرا ساتھی تھا ۔ میں تمہارے معاملات طے کرا دوں گا ۔ طلاق ہو جائے گی اور تم دونوں اپنی راہ الگ کرسکوگے ۔ الگ راہ سے تمہارے مسائل حل ہوں گے یا نہیں یہ میں نہیں جانتا۔ البتہ اس سے قبل تمہیں میری ایک بات ماننی پڑے گی۔
ان دونوں میں یہ جرات نہیں تھی کہ وہ ابا کے سامنے نہ کہہ سکیں ۔ محسوس ہوتا تھا کہ ان کی شخصیت کے سحر میں وہ کھو گئے ہیں ۔ ابو صوم وصلاۃ اور ذکر واذکار کے بڑے پابند تھے ۔
ابو نے ان کے سامنے بس تین باتیں رکھیں تھیں ۔ ایک یہ کہ لڑکا بہر صورت وقت پر گھر آئے گا ، مسکراتا ہوا آئے گا اور وقفے وقفے سے کچھ نہ کچھ خرید کر لیتا ہوا آئے گا۔ دونوں میاں بیوی لازما ایک ہی بستر پر سوئيں گے اور ساتھ ہی کھانا کھائيں گے۔صبح بیوی شوہر کو ناشتہ کھلا کر رخصت کرےگی اور رات کا کھانا اپنے ہاتھوں سے بنائے گی ۔ دونوں جب تک ساتھ رہیں گے سوائے کہیں ضروری بات کرنے کے فون استعمال نہیں کریں گے ۔ انہوں نے انہیں بتایا تھا کہ اس طریقے سے علاحدگی کی راہ آسان ہو جائے گی ۔ گھروالوں اور ججوں کے سامنے مسئلہ کھڑا نہیں ہوگا، کیوں کہ تب یہ ثابت کرنے میں آسانی ہوگی کہ یہ دونوں اپنی مرضی سے بغیر کسی دباؤ کے الگ ہو رہے ہیں ۔
ماسٹرصاحب ! انہوں نے وعدہ کرلیا ۔ ابو نے انہیں یاد دلایا کہ اگر وہ عمل نہیں کر سکے تو وہ ان کی کوئی مدد نہیں کر سکیں گے ۔ اس کے بعد وہ دونوں آج آئے تھے ۔ دونوں کی زندگی میں بڑی تبدیلی رونما ہو چکی ہے ، دونوں ایک دوسرے سے بے حد پیار کرتے ہیں ، لڑکی تین مہینے ہوئے امید سے ہے ۔ ان کے چہرے کی بشاشت اور آنکھوں کی چمک نے آج میرا ایمان بڑھا دیا ۔ میں نے جان بوجھ کر آپ کو باہر بیٹھنے دیا تھا، ان کی داستان اتنی اچھی تھی کہ میں ان کی کہانی میں کھو گيا تھا ۔ مجھے خود پر رشک آ رہا تھا کہ یہ نیکی میرے والد کے ہاتھوں انجام پائی ۔ وہ دونوں بتا رہے تھے کہ پندرہ بیس دن کے اندر اندر انہیں سمجھ میں آ گیا تھا کہ ابو نے انہیں ازدواجی زندگی جینے کا سلیقہ سکھایا ہے ، علاحدگی کی بات تو بس بات بھرتھی ۔ ان کی زندگی میں بہار تھی ، حسن تھا ، مستیاں تھیں ، مسرتوں کے لمحات تھے اور اب تو الحمد للہ ان کی محبت کے اس گلشن میں ایک پھول بھی کھلنے والا ہے ۔ وہ دونوں ابوکا شکریہ ادا کرنے آئے تھے ۔ داستان ہی ایسی تھی کہ بڑھتی چلی گئی ۔ جب اس دن آئے تھے تب بھی دونوں بولے جا رہے تھے ، آج آئے تب بھی دونوں بول رہے تھے ، تب زہر گھول رہے تھے اور آج جیسے ان کی باتوں سے موتی جھڑ رہے تھے ۔میرے لیے اور ابو کے لیے ان دونوں کی آنکھوں میں احساس ممنونیت کے ساتھ لب پر شکریہ کے بار بار آنے والے الفاظ تھے ۔ انہوں نے مجھے ایک بڑا قیمتی تحفہ بھی دیا ۔یہ دیکھیے یہ برانڈیڈگھڑی انہوں نے ہی دی ہے ۔ اے کاش آج ابو بھی زندہ ہوتے ، انہیں کتنی خوشی ملتی !!!
ماسٹر صاحب ! اب آپ بتائیں ، آپ کس لیے مجھ سے ملنا چاہ رہے تھے ۔ آپ نے ہمارے بچوں کو پڑھایا ہے ، کوئی مسئلہ ہے تو کھل کر بتائیں ۔ ان شاءاللہ تعالی ہم بہت اچھی طرح علاج کریں گے ۔
میں انہیں کیا بتاتا کہ میرے تمام مسائل کا حل تو وہ مجھے اس داستان میں سنا ہی چکے ہیں ۔ میں نے ان کا شکریہ ادا کیا ۔ان کی چائے کی تعریف کی اور گھر آیا تو لکھن حلوائی کی وہ جلیبی لے آیا جو ہم اپنی محبتوں کے زمانے میں ایک دوسرے کو کھلایا کرتے تھے ۔ میرے چہرے پر پھیلی مسکراہٹ اور جلیبی دیکھ کر صائمہ کی آنکھوں میں وہی چمک اور مسرت آئی جو برسوں پہلے آيا کرتی تھی لیکن پھر جیسے اس نے اس فرحت کو دبا لیا ۔ میں نے ایک جلیبی نکالی ، آدھی خود کھائی اورآدھی اس کے منہ میں ڈال دی ۔ پہلے تو وہ خود میں تھوڑی الجھی ، ادھر ادھر دیکھا اور جلیبی کھاتے ہوئے یوں میری بانہوں میں جھول گئی جیسے وہ بھی کب سے اسی لمحے کا انتظار کر رہی تھی ۔